بی جے پی حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے اقلیتی
طبقات مسلمانوں پر خصوصا جس طرح عرصہٴ حیات تنگ کیا جارہا ہے
اور ہندوستان جیسے سب سے بڑے سیکولر ملک کی شبیہ بگاڑنے کی
کوشش وتگ ودو ہورہی ہے ، یہ نہایت ہی افسوسناک اور ملک کی
نیک نامی پر مٹی پوتنے کے مترادف ہے،جب سے بی جے پی
بر سر اقتدار آئی ہے ، ہر روز فرقہ واریت کو بڑھا دینے والے بیانات
کا سلسلہ لگا ہواہے ، ہر شدت پسند جری وبہادر ہوگیا ہے ، ابھی
حالیہ دنوں میں در پیش ہونے والے واقعات نے یہ خطرہ کی
گھنٹی بجادی ہے، یہی صورتحال باقی وبرقرار رہتی
ہے تو پھر وہ دن دور نہیں جب ہمارا ملک کا چین وسکون غارت ہوجائے گا، یہ
قابلِ غور امر ہے مسلمان انڈونیشیا کے بعدہندوستان کی شکل میں
یہاں کے ایک بڑے باسی اور شہری کی حیثیت
رکھتے ہیں ، ان لوگوں کے تعلق سے تعصب اور تنگ ذہنی سے کام لینا
اور ان کے شعائر اور ان کے مذہبی امور سے چھیڑ خوانی کرنا اور
ہر مسلمان کی جانب منسوب چیز سے گھن اور نفرت کا اظہار اور خصوصاً
حکومت جوکہ ہندوستان کے دستور اور آئین کے تحت کام کرتی ہے ، اس کا آریس
یس اور اس کی ذیلی تنظیموں کی جانب اس کا
جھکاوٴ اور میلان اور اس کے سامنے اپنی کارکردگی کا جواب
دہ ہونا اور وزیر اعظم سمیت تمام بڑے وزراء کا آر ایس ایس
کی منعقدہ میٹنگ میں شرکت اور اپوزیشن پارٹیوں کی
جانب سے اس پر تنقید کہ موجودہ حکومت بجائے اس کے کہ وہ عوام کے سامنے جواب
دہ ہوتی آر ایس ایس اس کا حساب کتاب لے رہی ہے ، یہ
ساری چیزیں ہندوستان کے سیکولزم کے لیے خطرہ ہیں،
اگرچہ ابھی قریب میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے بشمول بی
جے پی کے جنرل سیکریٹری نے رام مادھو وغیرہ نے اس
کا انکار کیا ہے کہ یہ جنوبی دلی کے وسنت کنج میں
ہونے والا یہ اجلاس آر ایس ایس کے حکومتی امور میں
مداخلت کے مترادف ہے؛ لیکن آرایس ایس کی مسلمانوں کے تئیں
سنگ دلی اور فرقہ واریت اور شدپسندی گر چہ حکومت کی باگ
ڈور جن کے ہاتھ میں ہے، وہ بھی آرایس ایس کے ہی
پروردہ اور اسی کے تربیت یافتہ ہیں ، لیکن آر ایس
ایس جس نے بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد جس طرح یہ
کہا تھا کہ وہ حکومت کے امور میں کوئی دخل اندازی نہیں
کرے گی ، موجودہ اجلاس سے تو یہ ثابت نہیں ہوتا؛ بلکہ حکومت کے
آر ایس ایس کے سامنے جواب دہ ہونے کا احساس ہوتا ہے ، جس کو کانگریس
سمیت کشمیر کے عمر عبد اللہ، ماویاتی وغیرہ بھی
کہہ رہے ہیں کہ آر ایس ایس حکومت کے معاملات میں دخل
انداز ی کررہی ہے ،جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے اس اجلاس میں
وزیر اعظم سمیت حکومت کے سر برآوردہ وزراء مثلا : بی جے پی
کے صدر امت شاہ، مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ، وزیر خارجہ
سشما سوراج، وزیر خزانہ ارون جیٹلی اور وزیر صحت جے پی
منڈا وغیرہ نے شرکت کی ہے، اخبارات کے بموجب ، ہندوستان کی مردم
شماری میں مسلمانوں کی بڑھتی تعدادسمیت بابری
مسجد ، رام مندراور کشمیر کا دفعہ 370 بھی اس اجلاس میں زیر
بحث آئے ،ایک طرف یہ صورتحال ہے اور دوسری طرف پروین توگڑیا
اور ساکشی مہاراج جیسے شدت پسند لوگ مسلمانوں کی آبادی کے
مسئلہ کو لے کرمسلمانوں کو ہراسا ں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، دو سے زیادہ
بچے پیدا کرنے والے مسلمانوں کی تمام سہولیات بشمول تعلیم
وغیرہ کو ختم کرنے کی بات کہی جارہی ہے اور ان پر مجرمانہ
مقدمات کے نفاذ کا مطالبہ کیاجارہا ہے ، مسلم مخالف سوچ اور ذہنیت کس
قدر پنپ رہی ہے، اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کے نائب
صدر ڈاکٹر حامد انصاری کی مجلس مشاورت میں شرکت اور وہاں ان کا
حکومت کو یہ مشورہ دیناکے وہ مسلمانوں کے تئیں احساس تفریق
کو ختم کریں، مسلمانوں کی پسماندگی کا ازالہ کریں ، اپنے
وعدہ ”سب کا ساتھ سب کا وکاس“ پر برقرار رہیں ، حکومت نے صرف نائب صدر جمہوریہ
کے بحیثیت ایک مسلمان کے مسلمانوں کے مسائل کی جانب متوجہ
کرنے سے ایک واویلا اور طوفان کھڑا کیا، ان کے اس بیان کو
واپس لینے کی بات کہی گئی ، الیکٹرانک میڈیا
، چینلوں پر مباحثے ہونے لگے ، بی جے پی کے کئی ایک
لیڈران بشمول جنر ل سیکریٹری کیلاش وجے ورگیہ
، سریندر جین وغیرہ نے ان کو محض مسلمانوں کالیڈر قراردیا
اور اسے ان کے اس بیان کو عہدہٴ صدارت کے منافی گردانا، کیا
مسلمانوں کے مسائل پر توجہ دلانا جرم ہے ، اور یہ ڈاکٹر انصاری کے بحیثیت
نائب صدر جمہوریہ کے ایک مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کو ہدفِ تنقید
بنانا اور ان کے ہر عمل کو نوٹ کرنا یہ بی جے پی کا وطیرہ
بن گیا ہے ، اس سے قبل 26جنوری کو جھنڈا کو سلامی نہ کرنے پر
انھیں آڑے ہاتھوں لینے کی کوشش کی گئی ، جب انھیں
یہ بتلایا گیا کہ ہندوستان کے قانون اورپروٹوکول کے لحاظ سے
جھنڈے کوسلامی دینا صرف اور صرف صدر جمہوریہ کا کام ہوتا ہے کسی
اور کا نہیں ، تو چپ سادھ گئے ، اس طرح عالمی یوگا دِوَس کے
موقع پر نائب صدر جمہوریہ کی عدم حاضری پر واویلا مچایاگیا
، پھر جب یہ بتایا گیا کہ پروٹوکول کے لحاظ سے جس جگہ نائب صدر
کو بلایا جاتا ہے وہاں وزیر اعظم کو بطور مہمانِ خصوصی کے
مدعونہیں کیا جاسکتا ، اس کے بتلانے کے بعد ہندو تنظیموں کی
زبانیں گنگ ہوگئیں، اس کے علاوہ یہ بھی الزام لگایا
گیا کہ راجیہ سبھا ٹی وی نے یوگا دِوَس کو نہیں
دکھایا، چونکہ اس کاتعلق بھی نائب صدر جمہوریہ سے تھا، اس پر
اعتراض اور واویلا گیا ، پھر بعد ازاں راجیہ سبھا ٹی وی
کی طرف سے ثبوت پیش کیے گئے کہ راست ٹیلی کاسٹ کیاگیا
تو پھر سانپ سونگھ گیا، نائب صدر جمہوریہ کو بحیثیت
مسلمان کے ان کے ہر عمل کو دستور کی روشنی میں تولنے کی
کوشش کرنا کیا ہندو فرقہ پرست جتنے بھی روزانہ مختلف فیہ بیانات
دیتے ہیں اور مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے
نہیں دیتے، کیا یہ پروٹوکول کے تحت آتا ہے؟،اس کے چند دن
قبل این ڈی ایم سی نے دہلی ایک اہم سڑک کا
نام اورنگ زیب روڈ سے بدل کر اے پی جے عبد الکلام روڈ رکھ دیا،
اس کی وجہ بھی یہ بنی اورنگ زیب ایک مسلم
حکمراں تھا، بی جے پی ، پی جے عبد الکلام کے نام سے کوئی
دوسری نو تعمیر شدہ روڈ منسوب کرسکتی تھی، مسلمان
حکمرانوں کے نام کو حذف کرنا، یہ دراصل مسلم حکمرانوں کے ساتھ چڑ کا عندیہ
دیتا ہے ، بہر حال روڈ کے نام کی تبدیلی کی حمایت
ومخالفت میں بھی خوب گرما گرمی ہوئی، وہیں انگریزی
اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنی ایک شائع خبر میں
یہ بتلایا کہ2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں
کم سے کم177 شہر اور گاوٴں ایسے ہیں جن کا نام اس مغل بادشاہ کے
نام پر رکھاگیا ہے ، اورنگ زیب سے منسلک سب سے زیادہ مشہور نام
”اورنگ آباد “ ہے ، ملک بھر میں 63 اورنگ آباد ہیں ، جن میں سے
48 اترپردیش میں ہیں۔، یہ سارے نام اس عظیم
حکمراں اور بادشاہ کی بلا تفریق مذہب وملت کے لوگوں میں مقبولیت
اور رواداریوں کو بتلاتے ہیں ، ایک ہندو موٴرخ رائے بہادر
لالہ بیج ناتھ کتاب”ہندوستان گذشتہ وحال میں“ اورنگ زیب عالمگیر
مذہبی رواداری کے تعلق سے لکھتے ہیں :
”مسلمان فرماں رواوٴں کی نسبت
یہ اعتراض بھی پیش کیاجاتا ہے کہ ان کے عہد میں نئے
مندروں کی اجازت نہ تھی؛ لیکن یہ سراسر غلط ہے ، بہت سے
مندر اس عہد کے تعمیر شدہ اس وقت موجود ہیں ، گجرات میں کثیر
تعداد میں قدیم مندر ہیں، ان میں بڑ ی تعداد ایسے
مندروں کی ہے جو عالمگیر کے عہد میں تعمیر ہوئے “۔
بہرحال جب سے بی جے پی برسراقتدار آئی ہے ،
ہندوستان کے سیکولرزم اور اس کی جمہوری شناخت کو ختم کرنے اور
خصوصاً ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی مسلمانوں کو ہراساں
کرنے اور ان کے شعائر میں دخل اندازی کی کوشش تیز تر ہوتی
جاری ہے ، جس کے مسلم پرسنل بورڈ نے ”دین بچاوٴ، دستور بچاوٴتحریک
“ شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے، جس کے لیے دارالعلوم حیدرآباد
میں اس کا خصوصی اجلاس منعقد ہوچکا ہے ، جس میں فرقہ واریت
کے بڑھتے اثرات کو ختم کرنے اور ہندو مسلم اتحاد کے قیام کے لیے کوشاں
ہونے کی بات کہی گئی، یوگا، وندے ماترم اور سوریہ
نمسکار جیسے متنازعہ فیصلوں پر قانونی لڑائی لڑنے کابھی
عندیہ دیاگیا، اور یہ کہا گیا کہ ہندوستان ایک
سیکولر ملک ہے ، یہاں کے دستور میں مذہبی آزادی
حاصل ہے ، یہاں کے ہر شہری اور باسی کو یکساں حقوق حاصل ہیں؛
اس لیے مسلمان اپنے دین وایمان کا سودا نہیں کرسکتے ۔
$ $ $
------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ11،
جلد: 99 ، محرم الحرام1437 ہجری مطابق نومبر 2015ء